زکوٰۃ۔ ایمان کا دوسرااہم رکن؛؛؛ تحریر: مولاناامیر محمد اکرم اعوان ؒ


نبی کریم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے فرمایا(حدیث نمبر 15:مشکوٰۃ المصابیح) ایمان کا پہلا رکن ہے اِقَامُ الصَّلٰوۃِ نمازکو پورے اہتمام کے ساتھ قائم رکھے۔وَاِیتَاء ُالزّکٰوۃِ ایمان کا دوسرا رُکن یا دوسری شرط یہ ہے کہ دنیا کی محبت میں اللہ کی عظمت کوبھول نہ جائے۔ چوری، رشوت، حرام، بے ایمانی، دھوکہ، کم تول کر، جیبیں کاٹ کر، مال جمع نہ کرے،اس لئے کہ یہ مال اس کا نہیں ہے۔اللہ کا ہے۔ جائز حلال وسائل سے اللہ کریم دے تو اربوں کمائے،رکھے۔لیکن اُس پرسالانہ اللہ کے نام پر ڈھائی فی صد،چالیس روپے میں سے انتالیس رکھ لے۔ایک اللہ کے نام پر دے،غرباء کو،مساکین کو،جو زکوٰۃ کے مستحق ہیں اور یہ فرض ہے۔تاکہ اُسے احساس رہے کہ یہ مال میرا نہیں ہے۔اللہ کا ہے،اللہ نے حکم دیا ہے،انتالیس تم کھاؤ،ایک میرے نام پردے دو۔ اس رقم میں سے جو ایک سال تمہارے پاس تمہاری ضرورت سے زیادہ پڑی رہی ہے۔
ہمارے روشن خیالوں کو یہ سمجھ کیوں نہیں آتی کہ دنیا کے سارے مالیاتی نظام خواہ وہ سرمایہ دارانہ ہویا سوشلسٹ،بڑے بڑے نظام تو یہ دو ہی ہیں،سوشلزم یا سرمایہ دارانہ۔ جتنے اور بھی تاریخ میں ملتے ہیں، یہ سارے کمانے پرتو پابندی لگاتے ہیں کہ ڈاکہ نہ مارے، چوری نہ کر ے اور بعض غلط ذرائع کی بھی اجازت دے دیتے ہیں۔جیسے اب مغرب کے قوانین،امریکہ وغیرہ میں جوا عام ہے اور اس کی اجازت بھی ہے۔قانوناًمنع نہیں لیکن جوکمائی آتی ہے،اُس پر بھی حکومت کو ٹیکس دے کیونکہ ملک کا نظام حکومت نے چلانا ہے۔اُس میں حکومت کوحصہ دے،اُس کے بعد جو اُس کے پاس بچ جاتا ہے،اُسے رکھے،کسی کو دے دے،سڑک پر رکھ کر آگ لگا دے،خرچ کردے،فضول خرچی کرے،عیاشی کرے، اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔واحد اسلام کا مالیاتی نظام ہے کہ جو کمائی کے وقت بندے کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے کہ یہ لے سکتے ہو،یہ نہیں لے سکتے۔خرچ کے وقت ساتھ ہوتا ہے کہ اسراف نہیں کرسکتے،فضول خرچی نہیں کرسکتے۔جومال بچ جاتا ہے،اُسے واپس گردش میں لاتا ہے کہ جو رقم سال بھر پڑی رہی،کسی کام نہیں آئی،اس کا چالیس میں سے ایک روپیہ واپس سرکل میں لاؤ۔غریبوں کو دو،مساکین کودوتاکہ وہ رقم واپس گردش میں آجائے اور الگ نہ پڑی رہے۔یہ بات دنیا کے کسی مالیاتی نظام میں نہیں ہے۔
بنیادی طور پرزکوٰۃ،صدقات،قربانی اور ان کا چمڑا غرباء کا حق ہے۔ ہمارے ہاں بہت سی عجیب باتیں ہورہی ہیں،جو کم از کم میری سمجھ میں نہیں آتیں۔کوئی کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر یا ملکی سطح پر مشہور ہوگیا یا کوئی گانے بجانے والا مشہور ہوگیا۔اس نے زکوٰۃ، صدقات لینے شروع کردیئے۔ کیوں؟میں ہسپتال بنا رہا ہوں،غریبوں کا علاج ہوگا۔خدا کے بندے،غریبوں کی روزی تو تُو پہلے ہی چھین رہا ہے۔غریب کے مونہہ سے نوالہ چھین کر غریب کو دے گا کیا؟یہ کیسی عجیب بات ہے اور کتنا خوبصورت دھوکہ ہے۔ زکوٰۃ بھی دے دواورصدقات بھی۔ جوہسپتال بنے،اُن میں جاکر دیکھو، پچیس پچیس ہزار فیس لگ جاتی ہے۔بلڈ ٹسٹ کراناہوتو پتا چل جاتا ہے۔کتنے پیسے لگ رہے ہیں اور ساری زکوٰۃ جیب میں جارہی ہے۔دوچار نمائشی بندے رکھ لیے کہ ان کا مفت علاج ہورہاہے،باقی کمائی الگ ہورہی ہے۔زکوٰۃ غریب کا حق ہے،غریب کا نوالہ تو اُس کے مونہہ سے چھین رہے ہو۔زکوٰۃبھی چھین لی،صدقات بھی چھین لئے،قربانی کی کھالیں بھی چھین لیں۔یہ تو غریب کی روزی تھی۔تو جو چھین لیتا ہے،وہ اُس کودے گا کیا؟بڑی شہرت ہوگئی،بڑا کام کررہے ہیں۔کیا کام کر رہے ہیں؟ان لوگوں کے نام کا سکہ جاری ہوگیا،ڈاک کا ٹکٹ بن گیا۔ان صاحب نے غریبوں کی خدمت کے نام پر اربوں جمع کئے۔اس سے وہ کتنے ہسپتال بنا گئے؟ جہاں غریبوں کا مفت علاج ہورہا ہے؟ کون سے ادارے اور یونیورسٹیاں بنا گئے ہیں؟ جس سے قوم کا فائدہ ہوا ہے؟مرُدوں کی ہڈیاں اور بیماروں کے گردے تک تو بیچ کر کھا گئے۔وہ بچے،جو ولد زنا ہوتے تھے،پنگھوڑے میں لوگ ڈال جاتے تھے،وہ بچے اور بچیاں عیسائیوں کو بیچتے تھے کوئی خدا کا خوف کرو!جو بندہ غریبوں کا حق چھین رہا ہے۔وہ لوٹائے گا کیا؟قوم کو کیاملا؟کیا لوٹایا؟ کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ عوام کی صحت کا خیال کرے اور

ہسپتالوں میں سہولتیں دے؟ پرائیویٹ سکول بن گئے ہیں،کیا تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے؟سکولوں کایہ ہے کہ زکوٰۃ،صدقات تونہیں لیتے لیکن نہیں ہونے چاہیں۔حکومت کی ذمہ داری ہے۔کل کوئی چندہ کرکے زکوٰۃ،صدقات جمع کرکے عدالت بنا لے کہ عدالتوں میں انصاف نہیں ملتا،ہم سارے جمع ہوکر عدالت بناتے ہیں توکیا حکومت برداشت کر ے گی؟ کوئی نہیں مانے گا۔تو یہ کیوں برداشت کئے ہوئے ہیں؟یہ حکومت کا کام ہے۔ساری زکوٰۃ جمع کرنا،صدقات جمع کرنا،قربانی کا چمڑا جمع کرنا،فطرانے جمع کرنا۔ یہ حکومت کاکام ہے۔ یہ ٹیکس کی مد ہے۔
عہد رسالت میں رسالت مآب ﷺ نے ایک محکمہ بنایا تھا اور قرآن میں حکم ہے کہ زکوٰۃ جمع کرنے کے محکمے کے جو عالمین ہیں۔زکوٰۃ سے ان کی تنخواہ دی جاسکتی ہے۔یہ من جانب اللہ اسلامی ریاست کا رکن تھا کہ زکوٰۃ کا محکمہ ہو،وہ باقاعدہ ہرایک سے زکوٰۃ خود Assess کرکے لے۔اندازہ کرلیں کہ کتنی زکوٰۃ بنتی ہے اور وہ وصول کرکے حکومت کے خزانے میں جو بیت المال ہے۔اللہ کا مال،غریبوں کا مال ہے،اُس میں جمع کرائے۔اس سے حکومت کے کام چلائے جائیں،اسے تعلیم پر خرچ کیا جائے۔ہسپتالوں پر،علاج معالجہ پر خرچ کیا جائے۔ امن عامہ پر، پولیس پرخرچ کیا جائے۔دفاع پر خرچ کیا جائے، فوج کا بجٹ بنایا جائے اور ملکی ضروریات پوری کی جائیں۔لوگوں پر سے ٹیکسوں کا بوجھ کم کرکے، کھربوں روپے جو زکوٰۃ جمع ہوتی ہے،وہ اُس میں لگائی جائے۔ اُس سے اگر حکومتی اخراجات بڑھ جائیں تو پھر ٹیکس لگایا جائے اور ٹیکسوں کی اسلام میں صورت یہ ہے کہ اگر اخراجات بڑھ جاتے ہیں، پبلک پر،عوام پر ٹیکس لگتا ہے تو جب اخراجات کم ہوجائیں تو وہ ٹیکس اٹھا لیا جائے۔حکومت اسلامیہ میں اخراجات کا مرکزی فنڈ زکوٰۃ ہے، زکوٰۃ کا محکمہ ہونا چاہیے۔ہر ضلع،ہرتحصیل، ہر یونین کونسل سے لے کر مرکزی حکومت تک،زمین کی پیداوار کا عشر جمع کریں،زکوٰۃ جمع کریں،صدقات جمع کریں،فطرانہ جمع کریں، قربانی کا چمڑا جمع کریں،رفاعی کاموں پربھی لگائیں۔حکومت کے بجٹ پر لگائیں۔
سامعین کرام! ایما ن باللہ کا پہلا رکن ہے نماز،جو نماز ہی نہیں پڑھتا، پہلا رکن ہی چھوڑ دیا،دوسرے تک کہاں جائے گا؟جس عمارت کی پہلی منزل ہی نہیں ہے دوسری کس پر تعمیر ہو گی؟ وَاِیتَاء ُالزّکٰوۃزکوٰۃ دے۔اسے احساس ہو کہ مال اللہ کا ہے۔ دینا اللہ نے ہے،رازق اللہ ہے،میں اس میں حرام اور ناجائز کیوں ملاؤں؟ جو میرا حصہ ہے میں وہی کھاسکتا ہوں۔ہم نے ایسے رشوت خوروں کو دیکھا ہے جنہوں نے اربوں، کھربوں جمع کئے اور کوٹھیاں بنگلے بنا کر کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے تو اُبلے ہوئے آلو کھاکراُٹھ گئے جس نے کھانے تو ابلے ہوئے آلو ہیں وہ کروڑوں رشوت کس لئے لے رہا ہے؟جب زکوٰۃ دینی ہو گی تو حلال کمائے گا بھی۔جب زکوٰۃ دے گا تو یہ احساس ہو گا کہ مال اللہ کا ہے، میں ضرورت پرتو خرچ کرسکتا ہوں،ضائع نہیں کرسکتا۔Pothohar_News#

اپنا تبصرہ بھیجیں