لیلتہ القدر۔جمالِ باری کا خزانہ::: تحریر:۔ مولاناامیر محمد اکرم اعوان


قرآن حکیم اس ذات کا ذاتی کلام ہے جو کائنات کا خالق ہے،مالک ہے، وحدہ ‘ لاشریک ہے۔ ارشاد ہوتا ہے اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ”بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل (کرنا شروع) کیا“۔اللہ کی بہت بڑی نعمت جو مخلوق کو نصیب ہوئی وہ اللہ کا ذاتی کلام ہے،جو اللہ کی صفت ہے۔کلامِ الہٰی کے ساتھ اللہ کی ذاتی تجلیات برستی ہیں،جو دلوں کو سیراب کردیتی ہیں۔اس سے بڑا کوئی دوسرا انعام نہیں تو فرمایا یہ ایسی مبارک رات ہے کہ اس میں میرا ذاتی کلام مخلوق کی طرف منتقل ہوا۔کلامِ الہٰی کے ساتھ ذاتِ باری کے اثرات بھی منتقل ہوتے ہیں۔حدیث شریف میں ہے کہ مؤذن کی اذان کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے وہاں تک شیطان بھاگتا چلا جاتا ہے۔اس کا مطلب ہے اس میں اتنی نورانیت ہوتی ہے کہ وہ شیطان کو بھگائے لے جاتی ہے۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خالق کے ذاتی کلام میں کیسی تجلیات ہوں گی؟ذاتِ باری کا کتنا اثر موجود ہو گا؟ اسی لئے رب جلیل نے لیلۃالقدر کی پہلی فضیلت ہی نزول کلامِ الہٰی بیان فرمائی کہ قرآن حکیم اللہ کا کلام ہے جو شب قدر کو لوح محفوظ میں منتقل ہوااور وہاں سے اس کا نزول روئے زمین پر بتدریج تئیس برسوں میں مکمل ہوا۔ نزول قرآن کے لئے پہلے دن کو اگر تلاش کیا جائے تو حرا میں جو نزول ِقرآن ہوا وہ بھی شب قدر ہی نکلے گی۔ شب قدر کو رحمت الہٰی کے عام ہونے سے، اللہ کی بخشش کے عام ہونے سے،اللہ کے کرم کے دریا موج در موج بخشش نچھاور کرنے سے ایک خاص نسبت ہے۔اللہ کا کلام ہو اور نوع انسانی پر نزول ہوتو وہ کتنی برکات لاتا ہے؟آدمی سوچ نہیں سکتا۔ اس لئے کہ نہ اللہ کی ذات کی کوئی حد ہے،نہ اس کی صفات کی کوئی ابتداء ہے،نہ انتہا۔یوں تو رمضان المبارک میں قیام، تراویح اور تہجدہر ایک کی اپنی خصوصیت ہے۔ دن بھر اللہ کی فرمانبرداری میں جائزامور سے پرہیزبندۂ مومن کو ذات ِ باری سے ایک خاص قرب عطا کرتا ہے کہ اللہ تو رگِ جاں سے قریب تر ہے لیکن قریب ہونا اور بات ہے اور بندے کو قرب کا احساس ہو یہ اور بات ہے۔ روزہ اس احساس کو بیدار کرتا ہے کہ تیرا مالک تیرے پاس ہے۔یہ احساس ترقی کرتا ہے اور بندہ اپنا محاسبہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے یعنی پہلے عشرے میں رحمت ِخداوندی سے احساس ِزیاں پیدا ہوا،دوسرے عشرے تک احساس ِندامت نے زور پکڑا اور اصلاح احوال توبہ اور مغفرت کے لئے کوشاں ہوا، جب اپنا احتساب کرنے کا حوصلہ آیاتو تیسرے عشرے کی طاق راتوں میں اپنے رب کریم کی بے پایاں مغفرت کا طالب ہوا۔ اب اندازہ کیجئے کہ کس قدر عظیم کلام ہے تو اس کاپڑھنا کتنا عظیم کام ہوگا؟ جنہیں اس کے حفظ کی سعادت نصیب ہوئی،ان پر اللہ کا کتنا احسان ہے؟جن سینوں میں،جن ذہنوں میں،جن دلوں میں محفوظ ہے وہ کتنے خوش نصیب ہیں؟ اس کی قرأت کا حسن، اس کے حروف، الفاظ کی ادائیگی،لہجے کا زیروبم،ان باریکیوں کو جاننا کتنا عظیم کام ہے؟ اس کے مفہوم کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا تو مقصد حیات ہے۔فرمایا وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْر ”اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟“ فرمایا اے مخاطب تجھے کیا خبر قدر کی رات کیا ہے؟اس کی عظمت انسانی اندازوں سے بڑھ کرہے۔انسان کسی بھی چیز کی خوبی،اچھائی اور کمال کے جس قدر بھی اندازے لگا لے،اس رات کی فضیلت اندازوں سے بالاتر ہے۔ اس کی فضیلت سمجھنے کے لیے یہی کافی ہے۔ اللہ فرماتا ہے لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ لفظ ”الف“ کی تشریح علماء کے نزدیک یہ ہے کہ عرب کے روز مرہ میں ہزار کا عدد یا ہندسہ”الف“ تھا اور یہ کُل یعنی تمام کے لئے بولا جاتا تھا یعنی جب پورے زمانے کو شمار کرنا ہوتا تو لفظ”الف“ استعمال کرتے۔علماء یہاں بھی یہی مراد لیتے ہیں کہ اس ایک رات میں قلوب ِانسانی جتنی تجلیات حاصل کر سکتے ہیں۔لیلۃالقدر کے علاوہ جتنی دنیا کی عمر ہے، ا س ساری میں بھی نہیں کر سکتے۔یعنی مسلسل تجلیات و برکات متوجہ ہوں،بندے میں استعداد بھی ہو اور وہ جمع بھی کرتا رہے تو وہ فراوانی جو اس رات میں ہے وہ ان تمام صدیوں کو جمع کر لیں تو بھی نہیں ہو سکتی اور اگر”الف“ مہینہ سے مراد ہزار مہینہ بھی لیاجائے تو بھی ساڑھے تراسی سال بنتے ہیں تو ربّ کریم فرماتے ہیں یہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ یعنی کوئی ہزار مہینے صرف عبادت ہی کرتا رہے،سجدے ہی کرتا رہے،ذکر ہی کرتا رہے تو بھی اس کی عظمت بڑھ کرہے۔ہزار مہینوں کے تقریباً تراسی برس سے کچھ اوپر بنتے ہیں۔اگر کوئی تراسی برس کی عمر پائے اور اس کی ساری عمر عبادت اور سجدے میں بسر ہوجائے تو ا س کاسارا ثواب جمع ہوکر بھی ایک لیلۃالقدر کے اجر کونہیں پاسکتا، یہ اس سے بہتر ہے۔کتنی بہتر ہے؟ اللہ بہتر جانتے ہیں۔اس طور پراندازہ کیجئے کہ جس رات میں قرآن کریم نارل ہوا۔اسے اتنی فضیلت ہوگئی،جس ہستی پرنازل ہوااس ہستی ﷺ کی عظمتیں بے پایاں،جس شہرمیں نازل ہواوہ روئے زمین کی افضل ترین آبادی،جس مہینے میں ناز ل ہواوہ افضل ترین مہینہ، جو فرشتہ لایا وہ فرشتوں کا سردار۔تو خود اس کلام کی عظمت کا کیا عالم ہوگا؟ پھر جس نے اسے مانا،ایمان لایا،اسے سنا،اسے سمجھا،اس پر عمل کیا اس کی عظمتوں کا کیا ٹھکانہ؟
انسان کو متوجہ کیا جارہا ہے کہ وہ لیلۃالقدر کی اہمیت کا ادراک کرے،زندگی کی مہلت کو بہترین شے کے حصول کے لیے استعمال کرے،اس مہلت کا فائدہ اٹھائے اوراللہ کی عطا کردہ نعمتوں سے مستفید ہو۔اس عظیم رات میں رحمت باری لٹائی جا تی ہے فرمایا تَنَزَّلُ الْمَلٰٓءِکَۃ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِم مِّنْ کُلِّ اَمْر ”اس میں فرشتے اورروح اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں ہرکام (کے انتظام) کے لیے“ مفسرین کے مطابق،انتظام عالم کے ایک سال کے تمام امور فرشتوں کے سپرد کردئیے جاتے ہیں، ہرشخص کی صحت، بیماری،اولاد،رزق،زندگی،موت،تمام امور کی ذمہ داری دے دی جاتی ہے۔ تَنَزَّلُ الْمَلٰٓءِکَۃُ ملائکہ کا نزول ہوتا ہے۔ اللہ کی طرف سے اس کے فرشتے رحمت و مغفرت اور دل کا ثبات لے کر اُترتے ہیں۔ تفسیر رُوح المعانی میں صاحب تفسیر لکھتے ہیں کہ کوئی ایسا بندہ جو اس رات متوجہ الی اللہ ہو کر اللہ کی عبادت کر رہا ہو وہ ایسا نہیں رہتا کہ جبرائیل امین جیسا فرشتہ اس سے مصافحہ نہ کرے۔پھر وہ اس بات کی نشانیاں لکھتے ہیں کہ اس مصافحہ کے ساتھ کسی کے دِل پر رِقت طاری ہو جاتی ہے، کسی کی آنکھوں میں پانی آ جاتا ہے، آنسو بہنے لگتے ہیں اور طلب الہٰی بڑھ جاتی ہے۔
علماء کرام لکھتے ہیں کہ فرشتے اتنی تعداد میں زمین پر اترتے ہیں کہ زمین کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہوتا جس پر فرشتہ موجود نہ ہو۔وہ فرشتے جو طلب ِرحمت اور قبول ِرحمت کی قلوب میں استعداد پیدا کر دیتے ہیں۔جس کے نتیجے میں جمال باری کا ذوق بڑھ جاتا ہے اور تجلیات باری کو قبول کرنے کی،ان کو قلوب میں سمونے کی قوت بڑھ جاتی ہے۔ ”وَالرُّوْحُ“ سے بعض مفسرین کرام نے اس سے مراد جبرائیل امین لئے ہیں اور بعض کی رائے میں اس سے مراد وہ ارواح ہیں جو نجات یافتہ ہیں۔ اُنہیں بھی اس رات زمین پر آنے کی اجازت ملتی ہے۔یاد رہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین، تابعین ا ور تبع تابعین بہترین زمانوں کے لوگ ہیں یہ اخص الخواص ہیں۔ان کے بعد اولیاء اللہ اور وہ خاص ارواح جوزندگی میں،اس بدن میں رہتے بستے ہوئے،آسمانوں اور عرشِ اعلیٰ تک کی سیر کی قوت رکھتی ہیں۔وہ برزخ میں جا کر اس قوت پرواز سے محروم نہیں ہوتیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آدمی جب برزخ میں پہنچتا ہے تو اس کی دلچسپی دنیا سے ختم ہو جاتی ہے۔اس کے سامنے وہ حقیقت جلوہ گر ہوجاتی ہے، جس کے سامنے دُنیا ہیج ہے۔لیکن لیلۃالقدر میں اس ایک رات میں ”بِاِذْنِ رَبِّھِمِ“ انہیں اللہ کی طرف سے اجازت دی جاتی ہے کہ وہ علیین سے دنیا میں نزول کریں۔مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ جن ارواح کو زمین پر نزول کا اذن ہوتا ہے اور وہ آتے ہیں اور اپنے اہل خاندان کو دیکھتے ہیں اگر وہ نیک ہوں،ان کا عقیدہ صحیح ہو،ان کے اعمال اچھے ہوں تو بہت خوش ہوتے ہیں اور دُعا کرتے ہیں۔اگر زمین پر آکے دیکھیں کہ ان کا کردار اور اعمال اچھے نہیں تو پھر بڑے پریشان ہو جاتے ہیں،دکھ ہوتا ہے تو ہر شخص کے لئے اولاد بھی اس کی نیکیوں میں شمار ہوتی ہے۔ ایسے نیک لوگوں کی ارواح زمین پر آکر اپنے متعلقین کے لئے دُعا بھی کرتی ہیں ان کے اس دُعا کے طفیل غیر شعوری طور پر بغیر کسی خاص مشقت کے اللہ کی رحمت ہر مومن کو نصیب ہو جاتی ہے۔
یہ بات یقینی ہے کہ روح لامین بھی تشریف لاتے ہیں۔اللہ کا وہ فرشتہ جو قرآن لایا تھا،نبی کریم ﷺ پر وحی لاتا تھا،اب وہ وحی لے کر نہیں آتا،وہ انتظام وانصرام عالم کو دیکھنے آتا ہے۔ اس لیے اللہ کے بندے کوشش کرتے ہیں کہ یہ رات عبادت میں گزاریں اللہ کے فرشتے آئیں تو اللہ اللہ کرتے ہوئے پائیں۔لیلۃالقدر ان قیمتی لمحات سے مزین ہے کہ ساری صدیاں او رسارے زمانے مل کر اتنی رحمتیں نہیں لُوٹ سکتے جتنی لیلۃالقدر میں لٹائی جاتی ہیں۔روز بارش برستی ہے۔ہر قطرے کا انجام اپنا ہے، کوئی قطرہ ریت پر برستا ہے اور فنا ہو جاتا ہے۔ کوئی سبزے پر برستا ہے اُسے جان دیتا ہے،کوئی برف بنتا ہے،کسی سے دریا بہتے ہیں، کوئی سمندر میں گم ہو جاتا ہے، کوئی ایسا قطرہ برستا ہے جو سیدھا سیپ کے منہ میں جاتا ہے اور ایک چمکتا دمکتاموتی بن کر نکلتا ہے۔اسی طرح قلوب ِانسانی ہیں کہ کسی لمحے کس دِل میں کیا تڑپ پیدا ہوئی؟جتنی طلب ہوتی ہے،اس سے بڑھ کر وصولی ہوتی ہے۔
لیلۃالقدر کب ہوتی ہے؟ صحیح بخاری میں حضورﷺ کا ارشاد پاک موجود ہے کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرو۔لیلۃالقدرآخری عشرے کی طاق راتوں میں آتی ہے یعنی اکیسویں رات کو بھی آ سکتی ہے،تئیسویں،پچیسویں،ستائیسویں اور انتیسویں میں بھی آ سکتی ہے۔ علماء کا ارشاد ہے کہ جو شخص عشاء باجماعت ادا کرتا ہے اور فجر باجماعت ادا کرلیتا ہے تو اسے شب بیدار سمجھا جاتا ہے۔جوراتوں کو ذکر کرتے ہیں،نوافل پڑھتے ہیں،تلاوت کرتے ہیں وہ تو ہیں ہی شب بیدار لیکن جو عشاء باجماعت پڑھ کر سو گیا،اٹھ کر فجر باجماعت پڑھ لی،اسے بھی شب بیدار تصور کیا جاتا ہے گویا اس نے بھی لیلۃالقدر پا لی، اس کی برکا ت اسے نصیب ہو گئیں۔یہ کوئی ضروری نہیں کہ اس میں عجائب وغرائب نظر آئیں توہی لیلۃالقدر ہو ئی۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر جگہ ایک ہی رات لیلۃالقدرہو۔ہر علاقے میں بدل بدل کرآتی ہے۔ ایک علاقے میں اکیس رمضان کو ہو،دوسرے علاقے میں تئیس کوہو سکتی ہے،کہیں پچیس کو اور کہیں دوسری طاق راتوں میں۔ اسی طرح ممالک میں بھی فرق ہوتا ہے۔یہ میرا ذاتی خیال ہے کہ ہر طاق رات کسی نہ کسی جگہ لیلۃالقدر ہوتی ہے۔ میں نے کہیں پڑھا نہیں لیکن میں یہی سمجھتا ہوں کہ رمضان کے آخری عشرے کی ہرطاق رات لیلۃالقدر ہوتی ہے،یہ الگ بات ہے کہ اس کا ظہور کہاں ہوتا ہے؟ یعنی یہ ضروری نہیں کہ اگر ہمارے علاقے میں اکیس رمضان کولیلۃالقدر ہے تو کسی دوسرے علاقے وغیرہ میں بھی اکیس کوہی ہو۔اللہ کریم،بے حد کریم ہیں۔وہ ہررات کرم فرماتے ہیں کہیں نہ کہیں لیلۃالقدر ہوتی ہے، اللہ کے بندوں کویہ ساری طاق راتیں نصیب ہوجائیں،ان میں شب بیداری نصیب ہو جائے تو کتنی اعلیٰ بات ہے۔ سَلٰمٌ۔ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْر”یہ(رات) طلوع صبح تک (امان اور)سلامتی ہے“ رات کا وقت غروب آفتاب سے شروع ہوکر طلوع فجر پر ختم ہوجاتا ہے۔ ساری رات ان برکات کا یہی عالم رہتا ہے۔
سامعین گرامی! دیکھنا یہ ہے کہ جس کلام کے نزول کے لیے اتنا اہتمام فرمایا جارہا ہے۔ اسے ہم نے کتنا پڑھا،کتنا سمجھا اور اسے کتنا اپنا چکے ہیں؟میری بڑوں سے اور بچوں سے بھی گزارش ہے کہ قرآن کو پڑھو، سمجھو،کامیابی اسی میں ہے۔ یہ کوئی رواجی کتاب نہیں کہ اسے پڑھ لیا جائے اوربس! یہ کلام الہٰی ہے،اس کا دیکھنا عبادت، چھونا عبادت،پڑھنا عبادت،یاد کرنا عبادت ہے لیکن اس کا اصل مقصد اسے سمجھنا اور اس کے مطابق اپنی عملی زندگی کو ڈھالنا ہے۔ اللہ کریم ہمیں توفیق دیں اور ہماری معمولی کاوشوں کو قبول فرمائیں۔اٰمین۔Pothohar_News#

اپنا تبصرہ بھیجیں