جانے انجانے لوگ ۔۔۔ طارق بٹ ۔۔۔ نمبردار برکت حسین مرحوم ۔۔۔

آج کے دور کا کون سا ایسا 25/30 سالہ جوان ہو گا جو آج کے تقریبا اجاڑ بازار ساگری کو دیکھ کر اس بات کا یقین کرے گا کہ کسی دور میں یہ بازار پورے علاقے کی ایک بڑی منڈی ہوا کرتا تھا اور دور دراز سے لوگ خریداری کے لئے ساگری کا رخ کیا کرتے تھے میں بات کر رہا ہوں اس دور کی جب اس بازار میں اجناس کی ایک بڑی منڈی لگا کرتی تھی بھلاکھر تک سے کاشتکار اپنی سبزیاں، پھل اور دیگر اجناس اس منڈی میں فروخت کے لئے لایا کرتے تھے ۔ اس وقت ساگری بازار میں چہل پہل اور نظارہ قابل دید ہوتا تھا خاص طور پر صبح کے اوقات میں کہ آڑھت لگ چکی ۔ بیچنے والوں نے اپنا اپنا مال سجا لیا خریداروں کی آمد جوق در جوق جاری ہے ۔ بیچنے اور خریدنے والی سب نظریں ایک ہی چہرے پر مرکوز ہیں بابائے قوم قائد اعظم سے جذباتی وابستگی کے سبب قراقلی ٹوپی پہنے ایک دبلا پتلا لمبے قد کاٹھ کا شخص مختلف اشیاء کی بولیاں لگائے چلا جا رہے خریداروں میں سے کوئی ایک بولی لگاتا ہے دوسرا اور تیسرا اس سے بڑھ کر بھاو کرتا ہے یکدم قراقلی ٹوپی والا ایک دو اور تین کر دیتا ہے مال آخری قیمت لگانے والے کے نام ہو جاتا ہے اس قراقلی ٹوپی والے کی آواز تقریبا 20 برس تک ساگری کی آڑھت میں گونجتی رہتی ہے ہر آنے جانے والا شخص اس قراقلی ٹوپی والے سے شناسائی رکھتا ہے اور اسے نمبردار برکت حسین کے نام سے جانتا ہے ۔ یہ نمبردار برکت حسین جس نمبردار اللہ دتہ خان کے گھر 1923 میں پیدا ہوئے وہ گکھڑ سنال کے رہائشی ایک با اثر زمیندار تھے تقریبا 700 کنال اراضی کے مالک  نمبردار اللہ دتہ خان کو زمین داری کے ساتھ ساتھ مال مویشی خاص طور پر بھیڑ بکریوں سے بہت لگاو تھا زمین اپنی وافر تھی اس لئے بتانے والے بتاتے ہیں کہ انہوں نے کوئی 300 سے زائد تو صرف بکریاں پال رکھی تھیں ان کے چار بیٹے برکت حسین، نذر حسین، منظور حسین وفات پا چکے ہیں اور اس وقت انور حسین بقید حیات ہیں ۔ نمبردار برکت حسین نے ابتدائی تعلیم قریبی قصبے ملک پور عزیزال کے اسکول سے حاصل کی مگر پڑھائی میں زیادہ دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے جلد ہی آپ کا دل بھر گیا اور آپ نے مال مویشی اور کھیتی باڑی پر توجہ دینی شروع کر دی اس کام میں بھی آپ کا زیادہ عرصہ دل نہ لگا چنانچہ آپ پولیس میں بھرتی ہو گئے ۔ کسی کی ملازمت شاید آپ کے مزاج کو راس نہ آئی اس لئے صرف دو سال کے بعد پولیس کی ملازمت کو چھوڑ چھاڑ اپنے گاوں واپس آگئے شاید آپ نے محسوس کر لیا تھا کہ 15 برس کی عمر میں والد محترم کا داغ مفارقت دے جانا اس بات کا اشارہ ہے کہ اب آپ نے زمین ، مال مویشی اور گھر بار کی ذمہ داری نبھانی ہے بس اس کے بعد آپ نے اپنی تمام توجہ اپنی زمین ، مال مویشی اور گھر کے معاملات پر مرکوز رکھی ۔ آپ چونکہ محفل کے آدمی تھے پریا، پنچایت میں زیادہ خوش رہتے تھے اس لئے آپ نے 1950 میں ساگری بازار میں اپنی دکان کا آغاز کر دیا یوں یہ دکانداری کا سلسلہ 1995 تک جاری رہا اس دوران میں آپ نے تقریبا 20 سال دکانداری کے ساتھ ساتھ آڑھت کا کام بھی کیا اسی دوران میں آپ شادی کے بندھن میں بھی بند چکے تھے اب آپ کے روزانہ کے معمولات کچھ یوں شروع ہوتے کہ صبح سویرے اٹھنا نماز کے بعد تلاوت کلام پاک کی سعادت حاصل کرنا اور ناشتے کے بعد ہل اور بیلوں کی جوڑی لے کر کھیتوں کا رخ کرنا وہاں سے واپسی پر غسل کے بعد سیدھے ساگری بازار میں دکانداری اور یاری کی محفلیں سجانا۔ اسی دوران 1969 میں اپنے باقی دوستوں کے ساتھ آپ نے بھی اپنی سیاست کا محور و مرکز پاکستان پیپلزپارٹی کو بنا لیا ۔ قیوم بٹ مرحوم  ، ایوب کیانی مرحوم  ، ارشد تبریز ایڈووکیٹ (جو بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بھی رہے) ، ملک عدالت مرحوم، ماسٹر گلزار کیانی مرحوم، لالہ خان نذر مرحوم، میر اکبر شاہ مرحوم اور شیخ انورالرحمن مرحوم (والد محترم شیخ ساجد الرحمن) کے ساتھ آپ کا یارانہ اور دوستانہ مانتا ہے سارا زمانہ ۔ یہ وہ دور تھا جب ساگری اور گردونواح سے تعلق رکھنے والے تقریبا سارے اثرورسوخ کے حامل افراد اور دھڑے پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ وابستہ تھے۔ ساگری بازار میں سجنے والی ان دوستوں کی محفلیں اور بلند و بانگ قہقہے آج بھی جاننے والوں کے کانوں میں کبھی کبھی گونج اٹھتے ہیں ۔ دوستوں کی یہ خودساختہ پنچایت نہ صرف علاقے کے مسائل پر بات چیت کرتی بلکہ حتی الوسع ان کے حل کے لئے بھی اپنا اپنا اثرورسوخ استعمال میں لاتی اس دوران جہاں انہوں نے علاقے کے مختلف گھروں کے چھوٹے موٹے اختلافات کو آپس میں بیٹھ کر باہمی مشاورت سے ختم کروا دیا وہیں اسی دوران میں نمبردار برکت حسین مرحوم  نے بابو جبار مرحوم کے ساتھ مل کر اپنی مدد آپ کے تحت اپنے گاوں میں ایک پرائمری اسکول بھی بنوا لیا مزید راجہ شاہد ظفر سے ساگری اسٹاپ تا گکھڑ سنال سڑک کی تعمیر کا سہرا بھی آپ ہی کے سر سجتا ہے۔ اس کے علاوہ بنیادی مرکز صحت ساگری کی تعمیر کے لئے ماسٹر شیر زمان مرحوم سے انتہائی قیمتی زمین عطیہ کروانے میں بھی آپ نے اہم کردار ادا کیا ۔ سیٹھی عبد الغفور مرحوم کی چئیرمینی کے دور میں ساگری سے کلر سیداں روڈ تک پختہ راستہ رمیال میں سے گزارتے ہوئے جو رکاوٹیں درپیش آئیں ان کو دور کرنے میں جو کردار نمبردار برکت حسین مرحوم نے ادا کیا اس سے بھی سرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ نمبردار برکت حسین مرحوم بچپن اور جوانی میں طبعیت میں کافی جولانی رکھتے تھے یا یوں کہہ لیں کہ اس وقت گکھڑ کی روایتی اکھڑ آپ میں موجود تھی مگر جوں جوں عمر بڑھتی گئی آپ کے مزاج میں ٹھہراو آتا گیا اولاد پر کڑی نظر رکھنے والے اس شخص نے اپنی زوجہ محترمہ اور بچیوں کو ان کی ضروریات زندگی کی فراہمی ہمیشہ گھر کی دہلیز پر کرنے کی کوشش کی حتی کہ کپڑے کے تھان تک ساگری بازار سے گھر لے جاتے اور گھر والوں کی پسند کے کپڑے رکھ لیتے باقی واپس۔ قدیم روایات کی حامی یہ شخصیت بیل اور گھڑ دوڑ کی شوقین تھی خود بھی دوڑ میں حصہ لینے والے بیل اور گھوڑے رکھے ۔ دوستوں یاروں سے ملاقات کے لئے الگ سے بیٹھک بنا رکھی تھی تاکہ نہ تو گھر والے متاثر ہوں اور نہ ہی دوست یار گھٹن محسوس کریں ۔ بڑوں کے ساتھ رکھ رکھاو اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت کا رویہ رکھنے والے نمبردار برکت حسین 10 نومبر 2002 کو اس فانی دنیا سے رخصت ہو گئے اور اپنے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ چار بیٹے اور چار بیٹیاں چھوڑ گئے آپ کے بڑے بیٹے نمبردار مشتاق حسین پاک فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد نمبرداری کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں ایک مدت کے لئے جنرل کونسلر بھی رہے والد مرحوم کی طرح نمبردار مشتاق حسین بھی محفل کے آدمی ہیں اور والد محترم کی سنت کو جاری رکھتے ہوئے روزانہ ساگری بازار میں محفل سجاتے ہیں ۔ دوسرے بیٹے سلطان  محمود پولیس میں ہوا کرتے تھے مگر ان کی زندگی نے ان کے ساتھ وفا نہ کی اور جوانی میں ہی ان کا انتقال ہو گیا تیسرے عابد حسین ایک سرکاری اسپتال میں ملازم ہیں اور اہلیان علاقہ کے لئے ایک ایسی دردمند شخصیت کا درجہ رکھتے ہیں جو جب بھی اپنے بیمار عزیز و اقارب کو لے کر علاج کی نیت سے اس اسپتال جاتے ہیں تو یہ انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور اپنی بساط کے مطابق مدد کرتے ہوئے خدمت سے کبھی پہلو تہی نہیں کرتے۔ چوتھے صاحبزادے انتظار حسین چونکہ سب سے چھوٹے ہیں اس لئے ان میں کچھ لا ابالی پن سا بھی پایا جاتا ہے انہوں نے پراپرٹی کے کاروبار سے اپنے آپ کو منسلک کر رکھا ہے ۔ نمبردار برکت حسین مرحوم نے اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو وصیت کی تھی کہ میرے بعد میرے دوستوں خاص طور پر ایوب کیانی مرحوم اور شیخ انورالرحمن مرحوم کی اولاد کا ہر حالت میں خیال رکھنا اور ان کا ساتھ دینا بالکل ویسے ہی جیسے ان دوستوں نے میری ہر مشکل میں میرا ساتھ دیا ۔ مرحوم کی اولاد آج بھی یہ لج پال رہی ہے میری دعا ہے رب کائنات سے کہ وہ نمبردار برکت حسین مرحوم کے درجات بلند فرماہیں اور ان اولاد کے لئے ڈھیروں آسانیاں فراہم فرمائیں آمین ۔۔۔

کیٹاگری میں : لوگ

اپنا تبصرہ بھیجیں